لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کا معنیٰ
کلمۂ توحید کا مطلب ہے کہ اکیلے اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں ہے ۔اس کلمے پر کما حقہٗ عمل کرنے کی بہت سی شرطیں ہیں جو درج ذیل ہیں:
1 علم:
یعنی اس کلمے کے مطلب کا علم ہونا ضروری ہے۔ اس کلمے میں پہلے انکار ہے پھر اثبات ہے۔ اس بات کا علم ہونا چاہیے۔ یہ بھی واضح رہے کہ علم جہالت کے منافی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ (سورہ محمد: )۔
(اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ) جان لو! کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔
2 یقین کامل
دوسری شرط ایسا یقین رکھنا ہے کہ جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’بے شک مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں، پھر ان میں کسی قسم کا شک نہیں کرتے‘‘۔ (سورۃ الحجرات: )۔
3 اخلاص
تیسری شرط ایسا اخلاص ہے کہ جس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’خبردار! دین خالصتاً اللہ ہی کے لئے ہے۔ (سورۃ الزمر: )۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
’’اور لوگوں کو صرف یک طرفہ ہوکر خالصتاً اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ (سورۃ البینہ: )۔
4 تصدیق کرنا۔ سچ بولنا
چوتھی شرط ایسی صداقت ہے جس میں جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’ کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟ اور البتہ تحقیق ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ سچ بولنے والوں اور جھوٹوں میں امتیاز کر دے۔ (سورۃ العنکبوت)۔
5 محبت کرنا
اس کلمے اور اس کے تقاضوں سے محبت کرنا بھی ایک اہم شرط ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور لوگوں میں سے بعض اللہ کے علاوہ شریکوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ سے محبت کی جاتی ہے۔ (لیکن) ایمان والے تو صرف اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔ (سورۃ البقرہ: )۔
6 فرمانبرداری کرنا
کلمۂ توحید جن اُمور پر دلالت کرتا ہے ان کاموں کو بجالانا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ قرآنِ مجید شاہد ہے: ’’جو شخص اپنے چہرے کو نیکی کرتے ہوئے اللہ کے لئے جھکا دے، تو تحقیق اس نے ایک مضبوط کڑے کو تھام لیا ہے‘‘۔ (سورہ لقمان: )۔
7 قبول کرنا
اس کلمے کے تقاضوں کو قولاً و عملاً قبول کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’بے شک ان (مشرکین)کو جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تو یہ تکبر کرنے لگتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک مجنوں، شاعر کے لئے چھوڑ دیں‘‘۔ (سورہ الصافات)۔
1 علم:
یعنی اس کلمے کے مطلب کا علم ہونا ضروری ہے۔ اس کلمے میں پہلے انکار ہے پھر اثبات ہے۔ اس بات کا علم ہونا چاہیے۔ یہ بھی واضح رہے کہ علم جہالت کے منافی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ (سورہ محمد: )۔
(اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ) جان لو! کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔
2 یقین کامل
دوسری شرط ایسا یقین رکھنا ہے کہ جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’بے شک مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں، پھر ان میں کسی قسم کا شک نہیں کرتے‘‘۔ (سورۃ الحجرات: )۔
3 اخلاص
تیسری شرط ایسا اخلاص ہے کہ جس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’خبردار! دین خالصتاً اللہ ہی کے لئے ہے۔ (سورۃ الزمر: )۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
’’اور لوگوں کو صرف یک طرفہ ہوکر خالصتاً اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ (سورۃ البینہ: )۔
4 تصدیق کرنا۔ سچ بولنا
چوتھی شرط ایسی صداقت ہے جس میں جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’ کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟ اور البتہ تحقیق ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ سچ بولنے والوں اور جھوٹوں میں امتیاز کر دے۔ (سورۃ العنکبوت)۔
5 محبت کرنا
اس کلمے اور اس کے تقاضوں سے محبت کرنا بھی ایک اہم شرط ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور لوگوں میں سے بعض اللہ کے علاوہ شریکوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ سے محبت کی جاتی ہے۔ (لیکن) ایمان والے تو صرف اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔ (سورۃ البقرہ: )۔
6 فرمانبرداری کرنا
کلمۂ توحید جن اُمور پر دلالت کرتا ہے ان کاموں کو بجالانا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ قرآنِ مجید شاہد ہے: ’’جو شخص اپنے چہرے کو نیکی کرتے ہوئے اللہ کے لئے جھکا دے، تو تحقیق اس نے ایک مضبوط کڑے کو تھام لیا ہے‘‘۔ (سورہ لقمان: )۔
7 قبول کرنا
اس کلمے کے تقاضوں کو قولاً و عملاً قبول کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’بے شک ان (مشرکین)کو جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تو یہ تکبر کرنے لگتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک مجنوں، شاعر کے لئے چھوڑ دیں‘‘۔ (سورہ الصافات)۔
No comments:
Post a Comment